(Load Balancing) وزن متوازن کرنا

بچپن میں گاؤں جانا ہوتاتھابس سےمین سٹاپ پہ اتُرکر آگے گاؤں جانے کے لیےتانگہ لیناپڑتاتھا جو تب تک نہیں چلتا تھا تھاجب تک تانگے والے باباجی کو یہ یقین نہیں ہوجاتا تھا کہ اور سواری کوئی نہیں آئے گی۔ اگر تو تانگہ سالم یعنی پورا بُک کروالیتے تھے پھر اور بات تھی خیر چھ سواریوں کی جگہ بارہ یا چودہ لوگوں کواُن کے سامان سمیت بٹھا کے جب تانگہ گاوٌں کی کچی پکی ٹوٹی ہوئی سڑک پر چلتا تو جگہ جگہ غیرمتوازن انداز میں ہچکولے کھاتا  اور یوں محسوس ہوتا کہ ابھی گئے لیکن اسی دوران تانگے والے بابا جی آگے بیٹھنے والی سواریوں سے کہتے کہ ٹیک چھوڑ کے بیٹھواور پیچھے والوں کو کہاجاتا کہ ٹیک لگا کے بیٹھو۔ الغرض تانگے کوجہاں کہیں ایسی صورتِ حال کا سامنا ہوتااسکو اسی طریقے سے نبٹا جاتا اور سب مسافر منزل پہ بحفاظت پہنچ جاتے۔

زندگی میں بھی اکثر ایسی صورتِ حال کا سامنا کرناپڑتاہے لیکن ہم ان باباجی کی طرح وزن کو متوازن نہیں کرتے اور اس صورتِ حال میں گھر جاتے ہیں جہاں تھوڑی سی ہمت کرکے اور آگے آنے والے حالات کو بھانپ کر چھوٹے چھوٹے فیصلے کرکے درپیش حالات سے نکل سکتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ واقع ہی حالات ایسے ہوجاتے ہیں کہ بندہ جتنی بھی کوشش کرلے وہ پھنس جاتاہےاور نکلنے کا کوئی حل نہیں نظر آتا۔ اسطرح کے حالات میں چپ کرکے بیٹھ جائیں اور دیکھیں کہ قدرت کیاکرتی ہے باقی جو قدرت کو منظورہوتاہے وہی ہوتا ہےجب ہم ناکام ہوجاتے ہیں تواکثرکہتے ہیں کہ اب جوکرنا ہے اللہ نے کرنا ہے کرنا تو پہلے بھی اللہ نے تھا اب بھی وہی کرے گا لیکن کم از کم ہماری کوشش توضرورشامل ہونی چائیے۔

(بقلم خود: عمران اشرف)     

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں