ہم اور ہمارے مسائل
کل
سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیوجو کہ حاجیوں کی واپسی سے متعلق بڑی شیئر ہو
رہی تھی مجھے بھی موصول ہوئی منظر کچھ یوں تھا کہ ائرپورٹ پہ کچھ حاجی
صاحبان کنوئربیلٹ پہ اپنے اپنے سامان کا انتظارکررہے ہیں اور کنوئر بیلٹ جو
کہ چل رہی تھے اس پہ دیگر سامان کے علاوہ حجازمقدس کا مقدس پانی آبِ زمزم
بھی ہوتاہے۔ کچھ حاجی صاحبان کا زمزم کا پانی نہیں نظرآیاتو وہ لوگ کنوئر
بیلٹ کے اوپر چڑھ گئے اور اندر سے پورا چکر کاٹ کر آگئے مگر زمزم نہیں ملا
اور اسی دوران سٹاف کے کچھ لوگ حاجی صاحبان کو ڈانٹ ڈپٹ کے نیچے اتاررہے
ہیں اور سٹاف کے کچھ اور لوگ ٹرالی میں آب زمزم کی بوتلیں اُٹھا کے لارہے
ہیں اور ان کو بتارہے ہیں کہ آپکا پانی ادھر موجود ہے آپ بیلٹ پہ مت چڑھیں ۔
میں
جب یہ ویڈیودیکھ رہاتھا تو میرے ذہن میں کچھ باتیں آرہی تھیں کہ ہم لوگ
بلاسوچے سمجھے سب کچھ سوشل میڈیا کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ظاہرہے پاکستان میں
کم پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں اور اکثر ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے پہلی دفعہ
بیرونِ ملک سفر کیاہوگا اور ان کے ذہن میں یہی ہوگا کہ کہیں پانی گم ہی نہ
ہوجائے یہاں ان لوگوں کا فرض بنتا ہے جویہ منظردیکھ رہے ہیں وہ رہنمائی کر
سکتے ہیں کہ آپ لوگ صبر سے کام لیں ابھی سامان آجائے گا سٹاف کے لوگ بھی
موجود ہوتے ہیں وہ بھی یہ بتاسکتے ہیں۔ لیکن لوگ سادہ ہیں یا گھر پہنچنے کی
جلدی ہے یا پھر سامان گم ہونے کا خدشہ ہے جو بھی کہہ لیں یا سمجھ لیں۔
میرے
خیال میں جولوگ پہلی دفعہ سفررہے ہوں ان کے لئے رہنمائی ضروری ہے کہ کس
ترتیب سے آپ سارے کام کریں گے۔ یقیناً حجج کےلئے تربیتی پروگرامز میں یہ
چیزیں بتائی جاتی ہوں گی لیکن کچھ چیزیں آپکو ہٹ کے بھی پیش آتی ہیں جس سے
پریشانی ہوسکتی ہے۔ مثلاً میں جب پہلی دفعہ عمرہ ادا کرنے گیا تھاتوفلائٹ
چونکہ کونیکٹنگ (Connecting) تھی تو سامان اگلی فلائٹ میں ہم لوگوں نے خود
شفٹ کیا تھا اوریہ بات کسی نے بھی نہیں بتائی ائر پورٹ پہ سامان اٹھایا اور
اگلی فلائٹ کےلیے بُک کروادیا لیکن جب واپسی پہ اسی ائرلائن پہ تھے تو
انہوں نے خود سے شفٹ کردیا اور سارے مسافر پریشان تھے سامان کہاں گیا اور
مجال ہے کسی نے زحمت کی ہو بتانے کی خیر خود سے پوچھ پاچھ کے ہم نے باقی
لوگوں کی بھی تسلی کرائی۔ تو ایسی کئی مثالیں موجودہیں ۔ یہاں ان لوگوں کا
فرض بنتا ہے جن کوچیزیں پہلے سے پتہ ہوتی ہیں یاجو پڑھے لکھے لوگ کسی سے
پوچھ کے صورتِ حال سے دیگرکو آگاہ کردیں۔
(بقلم خود: عمران اشرف)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں