اشاعتیں

مارچ, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
 مجھے پنجابی زبان سے شکوہ ہے کہ اس میں کوءی بات بھی سیدھے طریقے سے نہیں کی جاسکتی بلکہ جب تک طنزکا پہلو شامل نہ کیا جاءے بات مکمل نہیں ہوتی اور اگلے بندے کو بھی سمجھ نہیں آتی۔ مثلاً اگرکوءی بندہ نیک کام کرناشروع کردے تو فوراً اسکو کہا جاءے گا آھوتوں بڑا حاجی ثنااللہ، ماں بچوں کو کہتی نظر اۡءے گی تہاڈے پیونے مینوں نوکر رکھ ک دتااے؟ باپ بچوں کو کہے گا میریاں کہڑا ملاں چلدیاں نے۔شکریہ بھی ادا کرنا ہو تو کہتے ہیں جی بڑی مہربانی اے تہاڈی تساں اے کم کر دتااے۔ کوءی کہتاہوا نظر آءے گا ساڈی کی مجال اے۔ کسی کی تعریف بھی کرنی ہو تو کہا جاتا ہے اج خیر اے بڑیاں پھرتیاں۔ غرض کہ کچھ بھی ہوجاءے بات میں طنز ضرور شامل کرنی ہے۔ اور سنجیدہ انداز میں کوءی بات نہیں کرنی اور اگر کوءی کر بھی رہاہوتو اسکو بھی یہی کہا جاءے اج خیر اے نا؟ویسے میرے خیال میں زبان سے زیادہ لوگوں کا قصور ہے جو الفاظ کا چناوءکرتے ہیں۔ (ازعمرانیات)